Responsive Ad Slot

test banner

Latest

Epicks

جب کشمیر ’ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو پچھتر لاکھ روپے میں بیچ دیا گیا



یہ کہانی سنہ 1846 کی ’امرتسر سیل ڈِیڈ‘ کے تحت کشمیر کی ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کو فروخت، ان کے مظالم اور پھر جموں اور کشمیر کی شاہی ریاست کے قیام کی ہے۔

کشمیر کن شرائط پر بکا اور اس کا کشمیریوں پر کیا اثرات پڑے، یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں تین سو چھبیس قبل مسیح میں میسیڈونیا سے آنے والے سکندر اور سائیتھئینز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔

کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب 'راجترنگنی' میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے۔

ان میں سے تمام غیر کشمیری ادوار میں جو بات مشترک تھی وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کا استحصال ہے، جو کہ تاریخ کی کئی کتابوں میں درج ہے۔

ان مظالم اور استحصال کے باوجود آٹھویں سے چودہویں صدی تک کشمیر کسی نہ کسی حد تک خود مختار اور خوشحال تھا۔ چودھویں صدی میں اسلام کشمیر پہنچا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہو گیا۔

درانی دور سب سے ظالمانہ دور تھا

مغلیہ سلطنت نے 1586 سے 1751 تک کشمیر پر حکومت کی۔ 1752-54 کے دوران افغانستان کے احمد شاہ ابدالی نے مغلوں سے کشمیر کو حاصل کر کے کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کیا۔ کشمیر میں افغان درانی دور 1819 تک چلا جب پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے شوپیاں کی جنگ میں افغان گورنر جبار خان کو شکست دی۔



کشمیر پر مغلوں کی حکمرانی کے دور کو شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے

سنہ 1822 میں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا۔ گلاب سنگھ نے اس میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار کا اضافہ کیا۔

سنہ 1839 میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ کا مقام مزید نمایاں ہو گیا۔ سنہ 1845 میں برطانیہ نے یہ کہہ کر سکھوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی کہ مہاراجہ وقت نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809 میں طے پانے والے معاہدہ امرتسر کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں۔

سکھ مہاراجہ جنگ ہار گئے اور نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکے، جس کے بعد انھیں کشمیر سمیت دیگر زمینیں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام کرنا پڑیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر بیچ دیا

ان کی کامیابی یقینی بنانے میں کردار ادا کرنے کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846 کے معاہدہ امرتسر (ٹریٹی آف امرتسر) کے تحت تقریباً 5380پچھتر لاکھ روپے میں (لگ بھگ ایک لاکھ پاؤنڈ) انھیں کشمیر بیچ دیا۔

اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے دو مارچ 1846 میں اپنی بہن کو لکھے ایک خط میں گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ کہہ کر متعارف کرایا۔ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ انھوں نے چِٹھی میں یوں بیان کی: ’بدقسمتی سےان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

ایک ’غدار کو نوازنے‘ کے اس فیصلے پر چارلز نیپئیر اور لارڈ ایلنبراہ نے تنقید کی۔



سنہ 1822 میں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا

1846 کا معاہدہ امرتسر کیا ہے؟

1846 کے معاہدہ امرتسر پر، جسے عام زبان میں ’سیل ڈیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، 16 مارچ 1846 کو دستخط کیے گئے۔ جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ اور برطانیہ کی طرف سے دو ارکان، فریڈرک کیوری اور بریور میجر ہنری مونٹگومری لارنس اور اس پر ہارڈنج کی مہر لگائی گئی۔

اس معاہدے کا اطلاق ’دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے پہاڑی خطے اور اس کے ماتحت علاقوں، بشمول چمب پر تھا لیکن اس میں ’لاہول‘ کا علاقہ شامل نھیں تھا جس پر نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے آرٹیکل چار کے تحت برطانیہ کا دعوی تھا۔

گلاب سنگھ کو دیے جانے والے اس سارے خطے کی مشرقی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو سروے کرنے کا ذمہ دیا جانا تھا۔ سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے برطانوی حکام کی رضامندی لازمی تھی اور مہاراجہ اور ہمسایہ ریاستوں کے درمیان کسی بھی طرح کا جھگڑا بھی برطانوی حکام نے ہی طے کرنا تھا۔

معاہدے کے تحت مہاراجہ اور ان کے وارثوں کی فوجیں ’پہاڑوں کے اندر‘ یا اس سے متصل علاقوں میں ضرورت پڑنے پر برطانوی فوجیوں کا ساتھ دینے کی پابند ہوں گی۔

ایک شق یہ بھی تھی کہ مہاراجہ برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی برطانوی، یورپی یا امریکی شخص کو اپنی خدمت میں نہیں رکھیں گے۔

ایک گھوڑا، بارہ بکرے اور پشمینہ شالوں کے تین جوڑے

برطانوی حکومت نے عہد کیا کہ وہ ’ان کے دشمنوں سے ان کے علاقوں کی حفاظت کرنے میں‘ مہاراجہ گلاب سنگھ کی مدد کریں گے۔ برطانوی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ہر سال برطانوی حکومت کو ’ایک گھوڑا، منظور شدہ شال بنانے والی نسل کے بارہ بکرے (چھ نر اور چھ مادہ) اور پشمینہ شالوں کے تین جوڑے‘ دینے کا عہد کیا۔


کشمیر پر سکھوں کی حکومت کے دور کی ایک نایاب کتاب

سنہ 1846 کا معاہدہ امرتسر ہندوستان کی دیگر خود مختار شاہی ریاستوں یا رجواڑوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں سے بہت مختلف تھا کیونکہ اس میں ایک برطانوی ریزیڈنٹ کی تعیناتی کے بارے میں کوئی شق نہیں تھی۔

یہ معاہدہ کشمیر میں ڈوگرا حکومت مضبوط کرنے کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس طرح جموں کشمیر کی نئی ریاست برطانوی سامراج کے ہندوستان میں ایک خود مختار شاہی ریاست کے طور پر شامل ہو گئی۔

سیاسی انتظامیہ کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا کا وائس رائے کشمیر کا حاکم نہیں تھا۔ تمام داخلی امور مہاراجہ کے ماتحت تھے اور برطانوی تاج کا ایک سیاسی یا ’پولیٹیکل ایجنٹ‘ تمام دفاعی اور خارجہ امور کی نگرانی کرتا تھا۔ چونکہ برطانوی حکومت کو ’پیراماؤنٹ اتھارٹی‘ کا درجہ حاصل تھا۔

سنہ 1857 کی بغاوت کے بعد، جسے ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ بھی کہا جاتا ہے، برطانیہ نے کچھ دیگر حقوق بھی ان ریاستوں کو منتقل کر دیے۔ ایسا تب ہوا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے 1858 میں ایک اعلامیے میں کہا کہ ’ہم مزید علاقوں پر قبضے کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘

اس کے بعد 1928 میں ’میمورینڈم آف پرنسلی سٹیٹس پیپل‘ کی تصدیق ہوئی، جس کے تحت برطانیہ کو اقتدار کے غلط استعمال کی صورت میں ان ریاستوں کے داخلی امور میں دخل اندازی کی حق حاصل ہوا۔

برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ گلاب سنگھ چین کے علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ایسا کرنے سے برطانوی اقتصادی مقاصد خاص طور پر تبتی اون کی تجارت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا، اسی لیے معاہدہ امرتسر میں واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ برطانوی رضامندی کے بغیر سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔


اکسائی چن کا علاقہ

ہندوستان اور چین کی سرحد کا تعین

اسی دوران برطانیہ نے مغرب میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحد طے کرنے کی کوشش بھی کی تاہم چنگ حکومت نے ان کی درخواست رد کر دی۔ جہاں تک چین کا سوال ہے تو جانسن ارداگھ لائن کو، جس میں اکسائی چین بھی شامل ہے اور جو انڈیا پر برطانوی حکمرانی کے دوران کھینچی گئی، برطانیہ نے یکطرفہ طور پر خود سے نافذ کیا اور اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی وجہ سے چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔

یہاں تک کہ سنہ 1959 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو ے نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اکسائی چن میں سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اکسائی چن کا تمام علاقہ انڈیا کی حدود میں آتا ہے۔‘

لیکن سنہ 1962 سے اکسائی چن پر چین کا کنٹرول ہے۔

ڈوگرا سلطنت کی کامیابیاں

ڈوگرا سلطنت نے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کی سرحدوں کو مضبوط کیا۔ گلاب سنگھ کی فوج کے جنرل زورآور سنگھ نے مشرق کے ہمسایہ علاقوں لداخ اور بلتستان پر حملہ کرکے انھیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد معاہدہ امرتسر کے ذریعے گلاب سنگھ نے 1846 میں کشمیر کو حاصل کر لیا۔ اسکے علاوہ پونچھ کا علاقہ بھی گلاب سنگھ کے زیر انتظام تھا۔

پونچھ دراصل گلاب سنگھ کے چھوٹے بھائی دھیان سنگھ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بطور جاگیر عطا ہوا تھا۔ یہ تمام علاقی جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا حصہ بن گئے۔

پونچھ ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور وہاں کے رہائشیوں اور ڈوگرا حکام کے درمیان 1830 کی دہائی میں کئی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم گلاب سنگھ نے طاقت کا استعمال کرکے ان ابتدائی ’بغاوتوں‘ کو کچل دیا۔ سنہ 1843 میں دھیان سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ پونچھ، بھمبر اور میرپور کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے تاہم کبھی بھی ان علاقوں کو کنٹرول نہیں کر پائے۔

معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت ایجنسی کو بھی بیچا گیا تھا تاہم ڈوگرا سلطنت کبھی بھی اس پر مؤثر حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ سنہ 1852میں ایک قبائلی بغاوت کے بعد وہاں ڈوگرا حکمرانی پوری طرح ختم ہو گئی۔ تاہم 1860 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ (گلاب سنگھ کے بیٹے) نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر سنہ 1936 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے پونچھ پر قبضہ کر لیا اور ایسے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا سیاسی نقشہ مکمل ہوا۔

زمینوں پر قبضے اور سرحدوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ڈوگرا حکمرانوں نے قانون سازی کر کے سنہ 1939 کے جموں کشمیر آئین ایکٹ کا نقشہ بنا کر، اپنی فوج قائم کر کے اور کئی معاہدوں کے ذریعے بھی اپنی طاقت کو مضبوط کیا۔



جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً پچھتر فیصد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا

ڈوگرا سلطنت کا جابرانہ نظام اور کشمیر کی کاشتکاری پر مبنی معیشت

گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت نے سو سے زیادہ برس کشمیر پر حکومت کی۔ یہ ایک بادشاہت پر مبنی مطلق العنان نظام تھا جس میں لوگوں پر بہت ظلم ہوئے۔ معاہدہ امرتسر پر اس وقت بھی سخت تنقید ہوئی۔ اس وجہ سے بھی کہ وہ پچھتر لاکھ جس کے ’عوض‘ کشمیر گلاب سنگھ کو ملا، اس کی وصولی کے لیے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا گیا۔ خود برطانیہ میں اس پر تنقید ہوئی اور یہ کہا گیا کہ کشمیریوں کو بیچ کر مہاراجہ کا غلام بنا دیا گیا ہے۔

رابرٹ تھورپ نے، جو کہ ہندوستان میں برطانوی فوج کے ایک افسر تھے، لکھا کہ یہ اتنی بڑی ناانصافی ہے کہ اس سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ایلمسلی ایک مشنری ڈاکٹر تھے اور ان کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا۔ انھوں نے کشمیر میں بہت وقت گزارا۔ انھوں نے لکھا کہ ’لوگوں کا شرمناک استحصال۔ ہم انگریزوں کے لیے شرمناک ہے کیونکہ ہم نے اس ملک کو اس کے موجودہ ظالم حکمرانوں کو بیچ دیا، ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ، جنھیں ہم نے دائمی غلام بنا دیا۔‘

جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً پچھتر فیصد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا۔

گلاب سنگھ نے سکھوں کے دور کے نظام کو جاری رکھا اور خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک قرار دیا کیونکہ وہ معاہدہ امرتسر کے ذریعہ کشمیر کو خرید چکے تھے۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی وہ ملکیت تک چھین لی گئی جو افغانون اور سکھوں کے دور سے ان کے پاس تھی۔ یعنی اب کسان مالک نہیں کرایہ دار تھا اور زمین پر کام کرنے کے لیے اسے ٹیکس دینا پڑتا تھا جسے ’حق مالکان‘ کہا جاتا تھا۔ مگر کسی وجہ سے ’حق مالکان‘ کی ادائیگی نہیں ہو پاتی تو کسان کو زمین سے خارج کر دیا جاتا تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ 1846 کے بعد ڈوگرا دور میں کئی ایسی پالیسیاں اور عمل متعارف کرائے گئے جن سے کشمیری عوام اور خاص طور پر مسلمان کاشتکاروں کو بہت نقصان پہنچا۔



کسانوں سے ان کی زمینوں کی وہ ملکیت تک چھین لی گئی جو افغانون اور سکھوں کے دور سے ان کے پاس تھی

کشمیر اور بیگار کا نظام

ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا حکمرانوں کے دور میں بیگار یعنی بنا معاوضے کے جبری مزدوری، ایک بدنام زمانہ پالیسی تھی۔ حالانکہ کشمیر میں بیگار19 ویں صدی کی دین نہیں تھی تاہم اسے جس طرح انتظامی اور اقتصادی ڈھانچے کا حصہ بنایا گیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

اس سب کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اس دوران کاشت کاری کے شعبے میں کچھ اصلاحات بھی کی گئیں۔ سنہ 1902 میں محکمہ زراعت کا قیام کیا گیا اور پھر 1919-20 کے دوران حکومت نے زرعی ترقیاتی بورڈ کی تشکیل کی۔

سنہ 1920 میں ہر طرح کے بیگار کے نظام کو ختم کر دیا گیا جس سے ان کسانوں کو کچھ راحت ملی جو اکثر کھیتوں میں کام کرنے کے بجائے دور افتادہ علاقوں اور دشوار گزار پہاڑوں پر سامان پہنچانے کے لیے زبردستی بھیج دیے جاتے تھے۔

سنہ 1930 میں جاگیرداروں کو اجناس میں ٹیکس دینے کے نظام اور اس کی وجہ سے ہونے والے استحصال کے خلاف کاشت کاروں کا احتجاج شروع ہوا۔

حکومت نے مسئلے کے حل کے لیے ایک ’جاگیردار کمیٹی‘ بنائی، تاہم اس کے تمام ارکان خود جاگیردار تھے۔

کمیٹی نے جاگیر میں کرایہ داروں کے حقوق اور جاگیرداروں کے حقوق اور فرائض وضع کیے۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ محصولات کو اجناس کی جگہ نقد کی شکل میں وصول کیا جائے اور اس کی وجہ سے جاگیرداروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کا ازالہ انھیں نئی جاگیریں دے کر کیا جائے۔

ان سفارشات کو حکومت نے تسلیم کر لیا تاہم زرعی شعبے میں اس تبدیلی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا جس کی وجہ سے کاشت کاروں کا فائدہ ہونے کے بجائے ان کے حالات مزید بگڑ گئے۔ جاگیرداروں نے اکثر نقصان دکھا کر نئی جاگیریں حاصل کر لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف جذبات نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔



کشمیر میں یوم شہدا کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں

13جولائی یوم شہدا کیسے بن گیا؟

13جولائی 1931 کو سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع تھی۔ عبدالقدیر نامی ایک شخص پر حکومت مخالف تقریر کرنے کا الزام تھا اور اس کیس کا اس دن فیصلہ آنے والا تھا۔ لوگ جیل کے باہر فیصلے کا انتظار کر رہے تھے، جب گورنر نے سب کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے اور وہاں تعینات پولیس نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دن وہاں بیس کشمیری موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جس کے بعد لوگوں میں بے چینی اور غصہ مزید بڑھ گیا۔

تب سے 13 جولائی کو کشمیر میں یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے، ایک ایسا دن جب عام کشمیری اپنے حقوق اور عزت نفس کے لیے ہلاک ہوئے۔

اس وقت کی حکومت کا مؤقف تھا کہ مظاہرین کا اصل اور خفیہ مقصد حکومت کا تختہ الٹنا تھا اور اس کے بعد موجودہ پابندیوں کو سخت کرتے ہوئے سیکشن 144 بھی نافذ کر دیا گیا جس کے تحت پورے کشمیر میں میٹنگوں، مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔

ساتھ ہی کشمیر دربار نے اپنے ایک بیان میں پولیس کی فائرنگ کو جائز قرار دیا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ حکومت کشمیر کے اس رویے پر ریاست کے باہر بھی سخت تنقید ہوئی۔ ریاست کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور 13 جولائی کے واقع پر غیر جانبدار تفتیشی کمیٹی بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا، جسے حکومت نے نظر انداز کر دیا۔

مہاراجہ ہری سنگھ کا اصرار تھا کہ خود ان کی بنائی ہوئی انکوائری کمیٹی، جس کا نام ’دالائی کمیٹی‘ تھا، غیر جانبدار ہے۔ اس کمیٹی نے پولیس کارروائی کو جائز قرار دیا جس سے کشمیریوں کا غصہ اور بڑھ گیا۔

اسی دوران کشمیر میں جاری شورش پر قابو پانے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ کو معاہدہ امرتسر کے آرٹیکل نو کے تحت ہندوستان کی انگریز حکومت سے مدد ملی۔ رائیفل بریگیڈ کو جموں میں، بارڈر ریجیمنٹ کو میرپور اور ہسارز کو جموں اور فرنٹئیر کے پٹرول کے لیے تعینات کیا گیا۔

مہاراجہ کے خلاف تحریک

سنہ 1931 میں پیش آنے والے واقعات نے کشمیریوں کو اپنے سیاسی حقوق کے حوالے سے ایک گہری نیند سے جگایا، جس سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس کی نظیر اس وقت کی کسی خود مختار شاہی ریاست میں نہیں ملتی۔ کشمیر میں خود مختاری، سیاسی اور مذہبی آزادی کے لیے اور مہاراجہ کے خلاف ایک تحریک شروع ہو گئی۔

یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ ہندوستان کے برعکس، کشمیر کی تحریک، برطانوی راج کے خلاف نہیں تھی۔ کشمیر کی تحریک ایک مسلمان اکثریتی آبادی پر ہندو ڈوگرا حکمرانوں کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ڈوگرا حکمرانوں نے ہندو پنڈتوں کے ایک بااثر طبقے کو کافی مراعات دے رکھی تھیں۔

لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ مظالم کے خلاف یہ انقلاب مجموعی طور پر سیکیولر تھا اور اس میں صرف مسلمان شامل نہیں تھے۔ یعنی کشمیری ہندو بھی اس کا حصہ تھے۔

اس تحریک کی قیادت پڑھے لکھے کشمیریوں کے ہاتھ تھی، جو معاشرتی اصلاحات کی بات بھی کرتے تھے، جیسے کہ شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز۔

شیخ عبداللہ کی قیادت میں آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام

پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں نے ’ریڈنگ روم پارٹی‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جہاں بحث مباحثے ہوتے۔ انھوں نے لندن میں مقیم پبلشر این ایل بینرجی سے رابطہ کیا جو ’انڈین سٹیٹس‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔

اس رسالے میں ریڈنگ روم پارٹی کے ارکان کی طرف سے ملنے والی معلومات کی بنا پر کشمیریوں کی حالت زار پر آرٹیکل شائع ہونے لگے، جس سے کشمیر کے باہر بھی کشمیر کی بات ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع ہوتی گئی۔ سنہ 1932 میں شیخ محمد عبداللہ نے آزادی کی اس تحریک کی قیادت سنبھالی اور اسی سال آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا بھی قیام ہوا۔ دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ انھوں نے کسان کو اس کی زمین پر ملکیت کے حق کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔

سنہ 1932 میں مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں شیخ محمد عبداللہ نے پرزور انداز میں کسانوں کو دائمی طور پر ان کی زمینوں کی ملکیت دینے کا مطالبہ کیا۔

اسی سال شیخ محمد عبداللہ کو گرفتار کیا گیا، ان پر پر مقدمہ چلا اور انھیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔ ان پر مجرمانہ سازش، حکومت کے خلاف جنگ کرنے، جنگ کی نیت سے اسلحہ جمع کرنے، غداری، منافرت پھیلانے اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزام لگائے گئے۔ اس کیس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن پھر رہا کر دیا گیا۔

تاہم تب تک کشمیر کی تحریک کافی زور پکڑ چکی تھی۔ کشمیریوں نے اپنی شکایات کی تفتیش کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کے اپنے مطالبات جاری رکھے۔

یہاں تک کہ مہاراجہ نے آخر کار یہ اعلان کیا کہ وہ ’مناسب‘ مطالبات کو پورا کریں گے اور کشمیریوں کی شکایات کو ہمدردی سے سنیں گے۔ اس کے بعد سر بی جے گلینسی کی صدارت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں اور دوسروں کی شکایات کی تفتیش کرنا تھا۔

اس کمیشن نے 22 مارچ 1932 کو اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی وجوہات کئی سیاسی اور معاشی مسائل تھے۔ رپورٹ میں کشمیر کی حکومت پر ہندوؤں اور عبادت گاہوں پر ان دعووں کو تقویت دینے کے حوالے سے بھی تنقید کی گئی۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کشمیری مسلمانوں کے لیے تعلیم میں سکالرشپس اور ریاستی نوکریوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش بھی کی۔

گلینسی رپورٹ کے بعد کشمیر میں آئینی اصلاحات کے لیے ’کشمیر کانسٹیٹیوشنل ریفارمز کانفرنس‘ تشکیل دی گئی، جس کے بعد فرینچائز کمیٹی بھی بنی۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات کی بنا پر 1934 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک آئینی ایکٹ متعارف کرایا جس کے تحت ’پرجا سبھا‘ کے نام سے ایک قانون ساز اسمبلی کا قیسم ممکن ہو گیا، جس کے پاس قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات بھی تھے۔

گلینسی کمیشن نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت واپس کرنے کی اور ان ریاستی زمینوں کی منتقلی اور انھیں کرائے پر دینے کے حقوق کی، جن کی ملکیت تو حکومت کی پاس ہے لیکن جو عام شہرہوں کے زیر استعمال ہیں، سفارش بھی کی تھی۔

مہاراجہ نے ان سفارشات پر عمل کرتے ہوئے زمینیں ان کسانوں کے نام کرنے کا اعلان کیا جن کے پاس تب تک صرف ان زمینوں کو استعمال کرنے کا حق تھا۔ جموں صوبے میں بھی ایسا ہی ہوا۔

تاہم گلینسی کمیشن کی سفارشات مجموعی طور پر ناکام رہیں کیونکہ ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ تیس اور چالیس کی دہائیوں میں کشمیر میں مہاراجہ کے خلاف تحریک بھی چلتی رہی اور حکومت کی طرف سے اسے دبانے کی کوششیں بھی۔

سنہ 1935 سے شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز نے ’ہمدرد‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار شائع کرنا شروع کیا جس میں ڈوگرا حکومت کی طرف سے کیے گئے مظالم کی خبریں باقاعدگی سے چھپتی رہیں۔

یہ اخبار خود کو ’جمہوریت اور کشمیری یکجہتی کا علمبردار‘ کہتا تھا اور اس میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم تعلقات کو بہتر بنانے اور خطے کی مجموعی ترقی کے بارے میں بھی اداریے شائع کیے جاتے تھے۔



شیخ عبداللہ سنہ 1949 میں سری نگر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے

مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس اور ’نیا کشمیر مینیفیسٹو‘

سنہ 1938 میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی میں ایک قرارداد پیش کی جس کے تحت مسلم کانفرنس کا نام بدل کر ’نیشنل کانفرنس‘ رکھ دیا گیا اور اس کی رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ جس کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگ میٹنگوں میں شامل ہونے لگے۔

سنہ 1938 میں ہی نیشنل کانفرنس نے جموں کشمیر کی معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تعمیر نو کے لیے ایک جامع اور وسیع منصوبہ تیار کیا جسے ’نیا کشمیر مینیفسٹو‘ کا نام دیا گیا۔

اس منشور کا آرٹیکل 50 پوری طرح کسانوں کے بارے میں ہے، یہاں تک کہ اس کا نام بھی ’پیزنٹ چارٹر‘ ہے۔ اس میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے، بیگار سمیت تمام جاگیردارانہ محصولات کے خاتمے، زمینیں کاشتکاروں کے نام کرنے، قرضے معاف کرنے، زرعات کے لیے فنڈ دینے، قدرتی آفات سے نمٹنے لے لیے ریلیف اور کھاد، زرعی آلات، کھیتوں تک پانی پہنچانے اور علاج معالجے تک کا مطالبہ کیا گیا۔

اس چارٹر کا سب سے دلچسپ اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے مطابق ہل چلانے والے کو زمین کی ملکیت دینا، اسے غربت اور افلاس سے نکالنے کے لیے ناگزیر تھا۔

مہاراجہ گھبرا گئے اور انھوں نے سات ستمبر 1939 کو ’جموں کشمیر کانسشٹیٹیوشنل ایکٹ‘ متعارف کرایا۔ سنہ 1940 میں نیشنل کانفرنس نے ایک نیا لال پرچم لانچ کیا جس پر ایک ہل بنا ہوا تھا، جو کہ کسانوں کے انقلاب کی علامت تھا۔

سنہ 1941 میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ شروع کیا اور نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے ہی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔

سنہ 1943 میں بغاوت کے خدشے سے مہاراجہ نے آئینی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے۔ اس کمیشن کا مقصد ریاست کی حفاظت، سالمیت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ تمام برادریوں کا ایک دوسرے کے قریب لانا، معیشت کی ترقی اور بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا۔



مہاراجہ ہری سنگھ جن کے ڈوگرہ خاندان نے جموں اور کشمیر پر تقریباً ایک صدی حکمرانی کی

’نیا منشور کشمیر‘

سنہ 1944 میں نیشنل کانفرنس نے اپنے سالانہ اجلاس میں ’نیا منشور کشمیر‘ جاری کیا۔ اس منشور میں کشمیر کے لیے آئین سازی کے ساتھ ساتھ ایک قومی اقتصادی منصوبہ بھی تھا۔ اس میں شہریت، قومی اسمبلی، کابینہ، قومی زبان، بنیادی حقوق کی ضمانت جن میں آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی بھی شامل تھے اور نظام انصاف جیسے موضوعات کی وضاحت کی گئی تھی۔

یہ منشور مہاراجہ کو پیش کیا گیا اور وہ دو اکتوبر 1944 کو اسمبلی میں ’ڈائی آرکی‘ (یعنی دو خود مختار نظاموں کے ذریعے حکومت) پر رضامند ہو گئے۔

سنہ 1946 میں شیخ محمد عبداللہ نے اپنی ایک تقریر میں مہاراجہ کی بالادستی کو چیلنج کیا اور ان کے خلاف ’کوئِٹ کشمیر‘ یعنی ’کشمیر چھوڑ‘ تحریک کا آغاز کیا۔

20 مئی 1946 کو نیشنل کانفرنس کے نمایاں رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور شیخ عبداللہ کو غداری کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔

1940 کی دہائی میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے کشمیر کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور ڈوگرا انتظامیہ میں نمائندگی کی کمی کو واضح کیا۔ 1930 کے بعد سے شروع ہونے والے آئینی اصلاحات سے عوام کو کسی حد تک ریاستی انتظامی نظام میں حصہ لینے کا محدود موقع ملا۔ ان اصلاحات سے کشمیریوں میں سیاسی شعور اور آگاہی بھی پیدا ہوئی۔

مہاراجہ نے جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا ممکن ہے کہ ان سے آگے چل کر کشمیر میں ایک منتخب حکومت اور اسمبلی وجود میں آتی، تاہم برطانوی ہندوستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور شاہی ریاستوں کے الحاق کے سوالات کا کشمیر پر گہرا اور دیرپا اثر پڑا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے انتخابات میں برطانیہ میں ونسٹن چرچل کی کنزرویٹو پارٹی ہار گئی اور لیبر پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب برطانیہ شدید اقتصادی مشکل میں تھا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ تھا۔

اس صورت حال کی وجہ سے وزیر اعظم ایٹلی نے برطانیہ کی انڈیا پالیسی تبدیل کر دی۔
کشمیری عوام کا ’قومی مطالبہ‘ محض ایک ذمہ دار حکومت کا قیام نہیں، بلکہ ’مکمل آزادی‘

19 فروری 1946 کو برطانیہ کے انڈیا امور کے وزیر لارڈ پیتھک لارنس نے کابینہ کے تین وزرا کو انڈیا بھیجنے کے فیصلے کا اعلان کیا، ان کے ذمہ ’مسئلہ انڈیا‘ کا حل تلاش کرنا تھا۔

اس کیبینٹ مشن کا ایک مقصد مقامی راجوں مہاراجوں اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا بھی تھا۔

24 اپریل 1946 کو کیبینٹ مشن سرینگر پہنچا تو شیخ محمد عبداللہ نے انھیں ایک میمورنڈم بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس رشتہ پر نظر ثانی نہایت اہم ہے کیونکہ تقریباً ایک سو سال پہلے کشمیر کی زمین اور اس کے عوام کو برطانیہ نے بیچ دیا تھا۔ کشمیری عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مشن سے ہمارے مقصد کے منصفانہ کردار اور اس کی طاقت کو پہچاننے کی اپیل کرتے ہیں۔۔ آج کشمیری عوام کا ’قومی مطالبہ‘ محض ایک ذمہ دار حکومت کا قیام نہیں، بلکہ ’مکمل آزادی‘ ہے۔

آزادی کے اس مطالبے کے بعد 12 مئی 1946 کو کیبینٹ مشن میمورنڈم پاس کیا گیا۔ اس کے پانچویں پیراگراف میں لکھا ہے ’ریاست کے وہ حقوق جو اسے برطانوی تاج کے ساتھ رشتے کی وجہ سے حاصل ہیں ان کا وجود اب ختم ہوتا ہے۔`

اس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس تین راستے تھے: انڈیا کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا خود مختاری۔

مہاراجہ ہری سنگھ نے فوری طور پر انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کر کے بظاہر خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔

انڈیا کے ساتھ ہونے والے معاہدہ الحاق پر دستخط کے بارے میں اگلی قسط میں بات کریں گے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ڈوگرا دور میں جہاں کشمیری عوام پر بہت مظالم ڈھائے گئے وہیں اس کی وجہ سے ایک طاقتور سیاسی تحریک نے جنم لیا اور شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں تب تک کی کشمیر کی واحد سیاسی جماعت، آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس، بھی ابھر کر سامنے آئی۔

یہ جماعت واضح طور پر ڈوگرا مخالف تھی اور اس نے حکومت سے معاشی، سیاسی اور مذہبی حقوق کا مطالبہ کیا۔ جس کی وجہ سے ڈوگرا دور میں زرعی نظام اور اصلاحات کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں بھی عمل میں آئیں۔

تاہم ان اصلاحات کے باوجود جاگیردار زرعی اور معاشرتی ڈھانچے میں بالاتر مقام پر قائم رہے۔ کشمیر میں اصل تبدیلی 1948 کے بعد تب آئی جب جاگیردارانہ نظام اور اس سے منسلک مراعات کو ختم کیا گیا۔

سنہ 1931 میں شروع ہونے والی سیاسی تحریک میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں نے حصہ لیا، یہاں تک کہ سرکار کے خلاف اس تحریک میں سرکاری ملازم تک شامل تھے۔

جواب میں حکومت نے شدید طاقت کا استعمال کیا۔ مارشل لا لگایا گیا، جس کے تحت پولیس کو کسے کو بھی بنا وارنٹ، صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کرنے کے خصوصی اختیارات دیے گئے۔ بیشمار لوگوں کو بنا مقدمہ چلائے قید کر دیا گیا۔

سرینگر میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت ریاستی فوجی افسران اور پولیس کو خصوصی اختیارات دیے گئے۔ لوگوں کو مساجد جانے کی اجازت نہیں تھی اور ’سیاست‘، ’انقلاب‘ اور ’دی مسلم آؤٹ لک‘ جیسے اخباروں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ڈوگرا دور کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم حصہ ہے۔ اس دور میں کشمیر ایک واضح سیاسی خطے کے طور پر سامنے آیا اور اس عمل میں معاہدہ امرتسر کا بہت برا کردار تھا۔ ڈوگرا دور ظالمانہ ضرور تھا لیکن اس دور میں ریاست جموں کشمیر جغرافیائی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے مستحکم ہوئے۔

اس زمانے کی دستاویزات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ڈوگرا حکمران علاقائی استحکام قائم کرنے، قانون سازی، فوجیں قائم کرنے اور ساتھ ساتھ آئین سازی میں کامیاب رہے اور یہ بھی کہ 1940 کی دہائی میں سامراجیت کے خاتمے کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی کشمیری پراعتماد تھے کہ وہ ڈوگرا حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں گے۔

Courtesy : BBC Urdu

No comments

Post a Comment

Don't Miss
© all rights reserved
made with by Sajid Sarwar Sajid